United States Holocaust Memorial Museum The Power of Truth: 20 Years
Museum   Education   Research   History   Remembrance   Genocide   Support   Connect
Donate

 

 

Voices on Antisemitism — A Podcast Series

Deborah Lipstadt

March 15, 2007

Deborah Lipstadt

Professor of Modern Jewish and Holocaust Studies, Emory University

When Holocaust denier David Irving sued Deborah Lipstadt for libel in a British court, she experienced what she called "the world of difference between reading about antisemitism and hearing it up close and personal."

RSS Subscribe | Download | Share | Comment

Download audio (.mp3) mp3 – 5.65 MB »

Transcript also available in:
English
إطلع على الترجمة العربية للنسخة المسجلة
ترجمه فارسی این نسخه را بخوانید
Español
Português (BR)


Transcript:

ڈیبرا لپسٹڈ
پی ۔ ایچ ۔ ڈی، یہودیوں اور ہالوکاسٹ کی جدید تعلیم کی پروفیسر، ایموری یونیورسٹی

جب ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والے ڈیوڈ ارونگ نے ایک برطانوی عدالت میں ڈیبرا لپسٹڈ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعوٰی کیا تو ڈیبرا نے اُس کیفیت کا تجربہ کیا جسے وہ خود سام دشمنی کے بارے میں محض پڑھنے اور قریبی اور ذاتی سطح پر پرکھنے میں فرق سے تعبیر کرتی ہیں۔

ڈیبرا لپسٹڈ:

ہالوکاسٹ سے انکار دراصل سام دشمنی ہی کی ایک قسم ہے۔ یہ سام دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں کیونکہ اگر آپ اِس کے بارے میں سوچیں توہالوکاسٹ کو یہ مبہم امتیاز حاصل ہے کہ یہ انسانی تاریخ میں قتلِ عام کو بیترین انداز میں قلمبند کرنے والی دستاویز ہے۔ لہذا آپ کو تمام حوالوں سے اِس قدر زیادہ شہادتیں میسر ہیں کہ پھر آپ کو یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ اگر یہ تمام ثبوت موجود ہیں تو پھر یہ افراد اِس سے انکار کیسے کرتے ہیں۔ اِس میں ایسی کیا بات ہے جس سے وہ انکار کرتے ہیں۔ ہالوکاسٹ سے انکار کی واحد وجہ سام دشمنی کی بنیاد ڈالنا اور اسے فروغ دینا ہے۔

ڈینیل گرین:

ڈیبرا لپسٹڈ نے جب ہالوکاسٹ سے انکار کی تاریخ مرتب کی تو انہیں عملی سے زیادہ نظریاتی طور پر سام دشمنی کا سامنا ہوا۔ لیکن جب ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والے ڈیوڈ ارونگ نے ایک برطانوی عدالت میں ڈیبرا لپسٹڈ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعوٰی کیا تو اُنہوں نے اُس کیفیت کا تجربہ کیا جسے وہ خود سام دشمنی کے بارے میں محض پڑھنے اور قریبی اور ذاتی سطح پر سننے اور پرکھنے میں فرق سے تعبیر کرتی ہیں۔ تین ماہ تک جاری رہنے والے اِس مقدمے نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔ مقدمے نے لپسٹڈ کو مدعا علیہ اور گواہ کے کردار کی طرف دھکیل دیا جس سے ہالوکاسٹ سے انکار کے حوالے سے نئے شواہد سامنے آئے۔

میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کی مہمان ہیں مؤرخ ڈیبرا لپسٹڈ۔

ڈیبرا لپسٹڈ:

1993 میں میری ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا :
Denying the Holocaust: The Growing Assault on Truth and Memory
یعنی "ہالوکاسٹ سے انکار: سچائی اور یادوں پر بڑھتا ہوا حملہ"۔ اِس کتاب میں میں نے شاید ایک مکمل صفحہ ڈیوڈ ارونگ نامی ایک شخص کے لئے مختص کر دیا جو تاریخی کتب کے مصنف ہیں اور برطانوی شہری ہیں۔ وہ 1988 سے ہالوکاسٹ سے کھلم کھلا انکار کرتے آئے ہیں کہ ہالوکاسٹ محض ایک قصہ کہانی تھا اور اُنہوں نے ایسے ثبوت دیکھ لئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کبھی ہوا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لہذا جب میں نے کہا کہ یہ شخص ہالوکاسٹ سے منکر ہے تو میں نے کوئی اشتعال انگیز بات نہیں کی۔ جب میری کتاب منظرِ عام پر آئی تو اُنہوں نے انگلینڈ میں مجھ پر ہتکَ عزت کا دعوٰی کر دیا۔ میں مدعا سلیہ تھی۔ میں نے اُن پر مقدمہ نہیں کیا تھا۔ بحر حال یہ چونکہ ایک برطانوی کیس تھا مجھے اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لہذا اگر میں اِس کیس کو نظر انداز کر دیتی تو وہ میری غیر موجودگی میں خود بخود یہ مقدمہ جیت جاتے۔ پھر وہ کہتے کہ ہالوکاسٹ کے بارے میں خود اُن کا نظریہ ہی حقیقی اور سچا ہے۔

مقدمے کی سماعت 12 ہفتے تک چلی اور آخر میں ہم نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ جج کو معلوم ہوا کہ ڈیوڈ ارونگ نے ہالوکاسٹ کے بارے میں جو دعوے کئے ہیں اُن میں سے ہر دعوٰی غلط ہے۔ جج نے اِس سلسلے میں تضحیک، گمراہ کن، جھوٹ، بے بنیاد اور بلا جواز کے الفاظ استعمال کئے۔ یہ واقعتاً ہالوکاسٹ سے انکار کے لئے ایک تباہ کن دھچکہ تھا جس سے اِس بات کا اظہار ہوا کہ یہ معاملہ رائے کا نہیں۔ یہ معاملہ دو فریقوں کا نہیں بلکہ اُن لوگوں کا معاملہ ہے جو تاریخ کے بارے میں صراصر جھوٹ کہتے ہیں۔

مجھے کسی حد تک اُن افراد کی تاریخ کا دفاع کرنے کا اعزاز حاصل ہے جنہوں نے بے حد تکلیفیں اُٹھائیں اور بعض اوقات تو اُن کی انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال کو اجاگر کیا یعنی جب جرمنوں اور اُن کے اتحادیوں کے ہاتھوں اُنہوں نے جانیں گنوا دیں اور جیسا کہ ڈیوڈ ارونگ نے ایک موقع پر نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ اُنہوں نے مجھے ختم کرنے کے لئے الگ کر لیا تھا اور میں نے کہا کہ اگر کسی کو یہ کام کرنا ہی ہے تو پھر اپنے انتخاب پر میں شکرگزار ہوں۔

لوگ خاموشی سے بیٹھے رہ سکتے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں وہ یہ کہ سکتے ہیں کہ اُن کا اِس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ میرے بیل کے ساتھ سینگ زنی نہیں ہو رہی اس لئے مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اِس طرح کے شر کے سامنے کوئی غیر جانبداری نہیں ہے۔ غیر جانبداری کا دعوٰی کرنا دراصل شر اور برائی میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا اگر آپ سازشیوں کی مدد کرنے کے حوالے سے ریکارڈ پر آنا چاہتے ہیں تو پھر آپ خاموش کھڑے رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ ایک ایسے شخص کی حیثیت سے ریکارڈ پر آنا چاہتے ہیں جو برائی کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے حالات میں بڑی بہتری واقع ہوتی ہے تو پھر میں سمجھتی ہوں کہ تعصب کا مقابلہ ضرور ہونا چاہئیے۔ اِنہی تعصبات کے درمیان کہیں سام دشمنی بھی ہے جس کا ہمیں مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔

 


 

Available interviews:

Stephen Mills
Hasan Sarbakhshian
Kathleen Blee
Rita Jahanforuz
Edward T. Linenthal
Colbert I. King
Jamel Bettaieb
Jeremy Waldron
Mehnaz Afridi
Fariborz Mokhtari
Maya Benton
Vanessa Hidary
Dr. Michael A. Grodin
David Draiman
Vidal Sassoon
Michael Kahn
David Albahari
Sir Ben Kingsley
Mike Godwin
Stephen H. Norwood
Betty Lauer
Hannah Rosenthal
Edward Koch
Sarah Jones
Frank Meeink
Danielle Rossen
Rex Bloomstein
Renee Hobbs
Imam Mohamed Magid
Robert A. Corrigan
Garth Crooks
Kevin Gover
Diego Portillo Mazal
David Reynolds
Louise Gruner Gans
Ray Allen
Ralph Fiennes
Judy Gold
Charles H. Ramsey
Rabbi Gila Ruskin
Mazal Aklum
danah boyd
Xu Xin
Navila Rashid
John Mann
Andrei Codrescu
Brigitte Zypries
Tracy Strong, Jr.
Rebecca Dupas
Scott Simon
Sadia Shepard
Gregory S. Gordon
Samia Essabaa
David Pilgrim
Sayana Ser
Christopher Leighton
Daniel Craig
Helen Jonas
Col. Edward B. Westermann
Alexander Verkhovsky
Nechama Tec
Harald Edinger
Beverly E. Mitchell
Martin Goldsmith
Tad Stahnke
Antony Polonsky
Johanna Neumann
Albie Sachs
Rabbi Capers Funnye, Jr.
Bruce Pearl
Jeffrey Goldberg
Ian Buruma
Miriam Greenspan
Matthias Küntzel
Laurel Leff
Hillel Fradkin
Irwin Cotler
Kathrin Meyer
Ilan Stavans
Susan Warsinger
Margaret Lambert
Alexandra Zapruder
Michael Chabon
Alain Finkielkraut
Dan Bar-On
James Carroll
Ruth Gruber
Reza Aslan
Alan Dershowitz
Michael Posner
Susannah Heschel
Father Patrick Desbois
Rabbi Marc Schneier
Shawn Green
Judea Pearl
Daniel Libeskind
Faiza Abdul-Wahab
Errol Morris
Charles Small
Cornel West
Karen Armstrong
Mark Potok
Ladan Boroumand
Elie Wiesel
Eboo Patel
Jean Bethke Elshtain
Madeleine K. Albright
Bassam Tibi
Deborah Lipstadt
Sara Bloomfield
Lawrence Summers
Christopher Caldwell
Father John Pawlikowski
Ayaan Hirsi Ali
Christopher Browning
Gerda Weissmann Klein
Robert Satloff
Justice Ruth Bader Ginsburg