United States Holocaust Memorial Museum The Power of Truth: 20 Years
Museum   Education   Research   History   Remembrance   Genocide   Support   Connect
Donate

 

 

Voices on Antisemitism — A Podcast Series

Elie Wiesel
Credit: Sergey Bermeniev

May 24, 2007

Elie Wiesel

Nobel Peace Laureate

Elie Wiesel—Holocaust survivor, best-selling author, and Nobel Peace prize recipient—has worked tirelessly to combat what he calls "the perils of indifference."

RSS Subscribe | Download | Share | Comment

Download audio (.mp3) mp3 – 7.87 MB »

Transcript also available in:
English
إطلع على الترجمة العربية للنسخة المسجلة
ترجمه فارسی این نسخه را بخوانید
Español
Português (BR)


Transcript:

ایلی ویزل
امن نوبل انعام یافتہ ناول نگار

ایلی ویزل ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والے مصنف ہیں جن کی تحریریں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل ہیں اور جو امن کا نوبل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اُنہوں نے اُس کیفیت کا مقابلہ کرنے کے لئے بے تکان کام کیا ہے جسے وہ "لا تعلقی کا خوف" یا “the perils of indifference” کہتے ہیں۔

ایلی ویزل:

لا تعلقی سب سے زیادہ آسان انتخاب ہے۔ آپ کو اپنا وقت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اپنے گھر پر رہ سکتے ہیں۔ اپنے کھانے کھا سکتے ہیں۔ سو سکتے ہیں۔ بجائے اِس کے کہ آپ اُن لوگوں کے بارے میں سوچیں جو تکلیف اُٹھا رہے ہیں اور وہ لوگ جو ایک قدرتی خوف میں زندگی بسر کرتے ہیں۔


ڈینیل گرین:

ایلی ویزل۔ ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والے مصنف جن کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں اور جو امن نوبل انعام یافتہ ہیں۔ اُنہوں نے عدم برداشت، نا انصافی اور جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے بے تکان کام کیا ہے۔ اِس سال کے آغاز میں سان فرانسسکو کے ایک ہوٹل میں ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والے ایک شخص نے ویزل پر حملہ کیا تھا۔ اگرچہ اِس حملے سے اُنہیں جسمانی طور پر کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن اِس واقعے کے نتیجے میں ویزل نے اپنی تحریروں کے بار بار موضوع بننے والے مسئلے پردوبارہ سوچ بچار کی جسے وہ "لا تعلقی کا خوف" یا “the perils of indifference” کہتے ہیں۔

میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کے مہمان ہیں نیو یارک میں اپنے دفتر سے ایلی ویزل۔

ایلی ویزل:

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ اُس شخص نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ ٹھیک؟ اور ہم پہلے ہی لفٹ سے باہر تھے اور اُس شخص نے مجھے گھسیٹ کراپنے کمرے میں لیجانے کی کوشش کی۔ میں نے چیخنا شروع کر دیا۔ میں حقیقتاً پورے زور سے چلّا رہا تھا۔ میں نے کبھی خود کو اِس طرح چلّاتے کبھی نہیں پایا۔ مدد۔ مدد۔ مدد۔ میں تین منٹ تک تو ضرور چلّایا ہوں گا۔ مگر کوئی بھی دروازہ نہ کھلا۔ پھر جب میں نیچے سیکورٹی کے عملے کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا کہ شاید تین لوگوں نے اُنہیں فون کر کے اطلاع دی تھی کہ اُنہوں نے آپ کو چلّلاتے سنا تھا۔ صرف تین؟ مگر وہاں تو بیس سے تیس افراد یقیناً ہوں گے کیونکہ یہ شام چھ بجے کا وقت تھا۔ شام کے چھ یا سات بجے کا۔ لیکن ایک بھی دروازہ نہ کھلا۔ لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔

اِس سے میں کیا نتیجہ نکالوں۔ لاتعلقی۔ بے حسی۔ آپ سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنی تمام زندگی کے دوران لاتعلقی کا مقابلہ کیا ہے۔ چلئیے تیین افراد نے فون کیا لیکن اُن میں سے بھی کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ یہ تکلیف دہ بات ہے۔ میرا مطلب ہے کہ میں نے اپنی تحریروں اور اپنے کام کے ساتھ کیا کیا۔ لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش ہی تو کی۔

اخلاقی طور پر بھی ۔ اخلاقیات کے معنی ہیں دوسروں کے لئے محسوس کرنا۔ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے۔

کسی شخص کے لئے ہمدردی اور رحم محسوس کرنا اور خاص طور پر ایسا شخص جو تنہا ہے، تکلیف میں ہے اور مایوسی میں ہے۔ یہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب ہم دوسرے لوگوں کو یاد کریں جب وہ تنہا تھے اور تکلیف اورمایوسی میں تھے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ محض ایک شخص ہی نہیں کوئی پورا گروپ ہی بھول جائے۔ بھولنے اور فراموش کر دینے کا مطلب ہے تہذیب کا خاتمہ۔ ثقافت کا خاتمہ۔ فیاضی کا خاتمہ۔ رحمدلی کا خاتمہ اور انسانیت کا خاتمہ۔ اِس لئے میں یاد کو مناتا ہوں اور اُسے تقویت دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے۔ ہر بات کے باوجود اب بھی مجھے یقین ہے کہ یاد ایک خول کی مانند ہے۔ اگر ہم یاد رکھیں گے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے لئے کیا کر سکتے ہیں تو ہم ایسے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں جو ممکن ہے آنے والے دنوں میں ایسے ہی دشمن کے خطرے میں سے دوچار ہوں۔

ٹھیک ہے نسلیں آتی ہیں اور نسلیں جاتی ہیں اور نئی نسلیں آ رہی ہیں۔ ہم پہلے ہی چار نسلوں کے فاصلے پر ہیں۔ ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والوں کے تو پڑپوتے پڑپوتیاں تک موجود ہیں اور میرا خیال ہے کہ پہلی نسل کے مقابلے میں تیسری اور چوتھی نسل اِس مسئلے کے بارے میں زیادہ حساس ہے۔ اِس لئے آج کل جو ہو رہا ہے اُس کے بارے میں کہنے کے لئے کچھ اچھی چیزیں موجود ہیں۔ میں اِنہیں اپنے اردگرد دیکھتا ہوں۔ جو خطوط مجھے موصول ہوتے ہیں۔ یہ پہلے ہی ہالوکاسٹ سے بچ نکلنے والوں کے پڑپوتے پڑپوتیاں ہیں یا پھر بچے ہیں۔ مجھے دنیا بھر کے ہائی اسکولوں خاص طور پر امریکہ اور فرانس کے اسکولوں سے سینکڑوں کی تعداد میں بچے ملنے آتے ہیں۔

واہ! یہ بے حد خوبصورت بچے ہیں خاص طور پر بارہ سالہ، سولہ سالہ اور دس سالہ بچے۔ یہ باتیں کرتے ہیں اور سوال پوچھتے ہیں۔ میں اِن سے بے حد متاثر ہوتا ہوں۔

اب میں یہاں دیکھ رہا ہوں۔ یہ بچوں کی طرف سے بھیجے ہوئے خطوط کے لفافے ہیں۔ ہائی اسکول۔ ہائی اسکول۔ ہائی اسکول۔ اور میں اِن سب کا جواب دیتا ہوں۔

آئیے اِس لفافے کو کھولتے ہیں۔ یہ نارتھ کیرولائینا سے آیا ہے۔ نارتھ کیرولائینا سے ونسٹن سالم لکھتا ہے "پیارے ویزل صاحب! میری عمر سولہ برس ہے۔ میں نے کتاب “Night” پڑھی۔ “Night” ایک غیر معمولی کتاب ہے۔ کتاب کا وہ حصہ جہاں آپ کیمپ میں لیجانے والی ٹرین میں سفر کر رہے تھے مجھ پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوا کیونکہ یہ حصہ مجھے سب سے زیادہ خوفناک لگا۔ کیا آپ کبھی واپس اپنے گھر کی طرف لوٹنے کے بارے میں سوچیں گے یا پھر یہ بات بہت زیادہ تکلیف دہ ہے؟"

اِس طرح کے سوالات۔ اور اِن سب کو جواب ملتا ہے۔ میں آپ کو بتاؤں کہ یہ میرے لئے ترجیح رکھتے ہیں۔ میری سیکٹری جانتی ہیں کہ مجھے جو کوئی بھی خط لکھتا ہے اُن میں سے بچوں کو خاص ترجیح حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ انتہائی اہم ۔ بے حد اہم اور اعلٰی مرتبوں کے لوگ بھی مجھے لکھیں لیکن بچے سب سے پہلے آتے ہیں۔
ایک بار پھر۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی ہالوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والے کو سننتا ہے وہ ایک گواہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بچ جانے والا خود بھی ایک گواہ تھا۔ عینی شاہد تھا۔ اور جو شخص ایک گواہ کو سنتا ہے وہ بھی ایک شہادت بن جاتا ہے۔ اِس طرح میرے یقین اور اعتقاد کا جواز موجود رہتا ہے۔

 


 

Available interviews:

Stephen Mills
Hasan Sarbakhshian
Kathleen Blee
Rita Jahanforuz
Edward T. Linenthal
Colbert I. King
Jamel Bettaieb
Jeremy Waldron
Mehnaz Afridi
Fariborz Mokhtari
Maya Benton
Vanessa Hidary
Dr. Michael A. Grodin
David Draiman
Vidal Sassoon
Michael Kahn
David Albahari
Sir Ben Kingsley
Mike Godwin
Stephen H. Norwood
Betty Lauer
Hannah Rosenthal
Edward Koch
Sarah Jones
Frank Meeink
Danielle Rossen
Rex Bloomstein
Renee Hobbs
Imam Mohamed Magid
Robert A. Corrigan
Garth Crooks
Kevin Gover
Diego Portillo Mazal
David Reynolds
Louise Gruner Gans
Ray Allen
Ralph Fiennes
Judy Gold
Charles H. Ramsey
Rabbi Gila Ruskin
Mazal Aklum
danah boyd
Xu Xin
Navila Rashid
John Mann
Andrei Codrescu
Brigitte Zypries
Tracy Strong, Jr.
Rebecca Dupas
Scott Simon
Sadia Shepard
Gregory S. Gordon
Samia Essabaa
David Pilgrim
Sayana Ser
Christopher Leighton
Daniel Craig
Helen Jonas
Col. Edward B. Westermann
Alexander Verkhovsky
Nechama Tec
Harald Edinger
Beverly E. Mitchell
Martin Goldsmith
Tad Stahnke
Antony Polonsky
Johanna Neumann
Albie Sachs
Rabbi Capers Funnye, Jr.
Bruce Pearl
Jeffrey Goldberg
Ian Buruma
Miriam Greenspan
Matthias Küntzel
Laurel Leff
Hillel Fradkin
Irwin Cotler
Kathrin Meyer
Ilan Stavans
Susan Warsinger
Margaret Lambert
Alexandra Zapruder
Michael Chabon
Alain Finkielkraut
Dan Bar-On
James Carroll
Ruth Gruber
Reza Aslan
Alan Dershowitz
Michael Posner
Susannah Heschel
Father Patrick Desbois
Rabbi Marc Schneier
Shawn Green
Judea Pearl
Daniel Libeskind
Faiza Abdul-Wahab
Errol Morris
Charles Small
Cornel West
Karen Armstrong
Mark Potok
Ladan Boroumand
Elie Wiesel
Eboo Patel
Jean Bethke Elshtain
Madeleine K. Albright
Bassam Tibi
Deborah Lipstadt
Sara Bloomfield
Lawrence Summers
Christopher Caldwell
Father John Pawlikowski
Ayaan Hirsi Ali
Christopher Browning
Gerda Weissmann Klein
Robert Satloff
Justice Ruth Bader Ginsburg