United States Holocaust Memorial Museum The Power of Truth: 20 Years
Museum   Education   Research   History   Remembrance   Genocide   Support   Connect
Donate

 

 

Voices on Antisemitism — A Podcast Series

Rabbi Gila Ruskin

December 21, 2009

Rabbi Gila Ruskin

Temple Adas Shalom, Havre de Grace, Maryland

At the age of 50, Rabbi Gila Ruskin left her pulpit position to teach Jewish studies at an urban-Baltimore Catholic school with a historically African American student body. The experience led Ruskin to appreciate the many ways that Jews and African Americans can come together through a shared history of oppression and, she says, a commitment to prophetic ideals.

RSS Subscribe | Download | Share | Comment

Download audio (.mp3) mp3 – 11.05 MB »

Transcript also available in:
English
Português (BR)
Русский


Transcript:

21 دسمبر 2009
یہودی ربی گیلا رسکن
یہودی عبادت گاہ اداس ‎‎شالوم،ہاروے ڈی گریس،ماری لینڈ
50 سال کی عمرمیں، یہودی ربی گیلا رسکن نے اپنی یہودی خطیب کی حیثیت کو چھوڑ کر بالٹیمور میں ایک شہری کیتھلک اسکول میں مطالعہ یہود پڑھانا چروع کر دیا۔ یہ اسکول تاریخی طور پر افریقی نژاد امریکی طلباء پر مشتمل ہے۔ اس تجربے نے رسکن کو یہودی اور افریکن امیریکن لوگوں کے درمیان ظلم کی مشترکہ تاریخ کی قدر کرنا سکھایا۔ اس کے علاوہ وہ دونوں برادریوں کے پیغمبرانہ افکار سے بھی آشنا ہوئیں۔
یہودی ربی گیلا رسکن:
ہمیں ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر رابطہ کرنا چاہیے،ایک دوسرے کوجاننا چاہیے۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق جوڑ کر ایک دوسرے سے سیکھنا چاہئیے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مکالمے کے دوران اور ایک دوسرے کے ساتھ گانا گانے اور ایک ساتھ جشن منانے اور جدوجہد کرنے کے دوران، جو کچھ بھی ممکن ہے، وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے میں جو بھی کرسکتی ہوں وہ ضرور کروں گي.

الیسا فشمین:
50 سال کی عمرمیں، یہودی ربی گیلا رسکن نے اپنی یہودی خطیب کی حیثیت کو چھوڑ کر بالٹیمور میں ایک شہری کیتھلک اسکول میں مطالعہ یہود پڑھانا چروع کر دیا۔ یہ اسکول تاریخی طور پر افریقی نژاد امریکی طلباء پر مشتمل ہے۔ اس تجربے نے رسکن کو یہودی اور افریکن امیریکن لوگوں کے درمیان ظلم کی مشترکہ تاریخ کی قدر کرنا سکھایا۔ اس کے علاوہ وہ دونوں برادریوں کے پیغمبرانہ افکار سے بھی آشنا ہوئیں۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز ہے جو اولیور اور ایلزبیتھ اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں آپ کی میزبان، الیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ان مختلف طریقوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جو ہماری دنیا پر اثر انداز ہونے والی سام دشمنی اورنفرت کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ بالٹیمور میری لینڈ سے یہ ہیں ربی گیلا رسکن۔

یہودی ربی گیلا رسکن:
میں یہاں بالٹیمور میں15 برس سے ربی رہ چکی ہوں، اور مجھے ایک نیا تجربہ چاہئیے تھا،جو چیلنجنگ بھی ہو اور مختلف بھی۔ اس لئے میں نے مذہبی جماعت کو چھوڑ دیا اور ڈاؤن ٹاؤن بالٹیمور میں ایک اسکول ہے جس کا نام سینٹ فرانسس اکیڈمی ہے۔ یہ ایک کیتھلک اسکول ہے۔ یہاں کے تقریبا تمام طلباء افریقی امریکی ہیں۔ اس کی شروعات ایک --غیر قانونی -- غلاموں کے اسکول کی حیثیت سے ہوئی تھی، لہذا یہ تقریبا 1823 سے قائم ہے۔ بہرحال ان کو کسی دین پڑھانے والے کی ضرورت تھی۔ اور میں نے گیارھویں جماعت کو ایک ایسا مضمون پڑھایا، جس کو یہ مطالعہ یہود کہتے ہیں۔

تو میرا کام انہيں انجیل کے بارے میں یہودیوں کا نظریہ اور یہودی ثقافت کے بارے میں سکھانا تھا- اسلئے میں نے انہیں چھٹیوں کے بارے میں سب سکھایا۔ ہم گانے گاتے تھے۔ ہر جمعہ کو ہم موم بتیاں جلاتے تھے، ہم انگور کا رس پیتے تھے، اور ہم سبات کو خوش آمدید کہتے ہوئے کھانے کھاتے تھے۔ اور آج تک فیس بک پر میرے ایسے کئی دوست ہیں جومیرے طالب علم ہوا کرتے تھے۔ جمعے کے دن ان میں سے بہت سے لوگ مجھے ابھی تک تہنیتی پیغام بھیجتے ہیں: "ربی، آ پ کو سبات کا دن مبارک ہو"۔

ہم ایسے پروگرام میں شامل تھے جس میں ہمارے یہاں سے 20 بچوں پر مشتمل ایک گروپ اور ایک یہودی اسکول سے 20 بچوں پر مشتمل دوسرے گروپ کو اکٹھا کیا۔ وہ ہر قسم کی سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے، ایک دوسرے کا سامنا،اور دیگر تعلیمی سرگرمیاں،مگر اصل بات ایک دوسرے کو جاننا تھا۔ مجھے ایک لڑکا یاد ہے -- اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ بڑا سا اور مضبوط جسم رکھنے والا تھا۔ اور وہ ایک شاعر تھا--- میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں کیونکہ وہ میری تخلیقی چیزیں لکھنے والی کلاس میں تھا-- ایک صحیح معنوں میں نازک ، شاعرانہ روح۔ اور بچے خارجی شکل و صورت کے بارے میں بات کر رہے تھے، کس طرح لوگ ظاھری شکل و صورت سے لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں اور انہیں صحیح طور پر جاننے کے لئے وقت نہيں نکالتے ہيں۔ اور اس نے جو کہا وہ بہت قابل غور ہے -- اس نے کہا کہ،"جب میں سڑک پر چلتا ہوں، تو لوگ مجھے سے دور ہونے کے لئے سڑک کے دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ "وہ کہتا ہے کہ اس کی شناخت کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے اور اپنے آپ کو تنہا اور اس دنیا میں اکیلا محسوس کرتا ہے۔ اور یہودی بچوں نے اس بارے میں واقعی جواب دیا۔

سیاہ فام بچے ، افریقی امریکی بچے، یہودی بچوں کے خلاف بہت شدید تعصب رکھتے تھے۔ وہ یہودیوں کے بارے میں بات کرتے تھے، ان کے امیر ہونے کے بارے میں ،آپ جانتے ہیں۔ مگر ان سب کے درمیان ایک ہی تجریہ تھا-- وہ اذیت پہنچانا نہيں تھا -- بلکہ میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ تعصب تھا۔ پھر انہيں احساس ہونے لگا کہ ان کے درمیان کوئی مشترکہ چیز ہے جب کہ پہلے انہيں لگتا تھا کہ ایسا کچھ نہيں ہے، علاوہ اس کے وہ ایک قسم کے گانے سنتے ہیں، اور اس طرح کی دوسری چیزیں۔

ان میں سے کچھ بچے، کیونکہ سینٹ فرانسس بہت خاص قسم کا اسکول تھا، بلکہ خاص ہے، بالٹیمور کے ہر کونے سے آتے ہيں۔ اس لئے ان میں سے کچھ کو ایک، دو یا تین بسوں سے اسکول جانا پڑتا تھا اور ان میں سے کئی ان بسوں میں اپنے ہم عمر بچوں سے مار کھاتے کیونکہ وہ اسکول یونیفارم میں ہوتے تھے اور اسکول چھوڑنے والے بچوں کے طعنوں کا بھی شکار ہوتے تھے۔ ان کے کئی گہرے دوست اب منشیات کی دنیا میں شامل تھے۔ اور ہمیشہ وہی لالچ رہتی تھی۔ اور اس طرح میں نے واقعی جو چیز سیکھی، وہ یہ کہ ان پر اس قسم کا دباؤ ہونا کیسا ہوتا ہے۔ ایک اور چیز یہ تھی کہ یہ بچے پر تشدد موت کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ان کی دنیا میں ہمیشہ موجود ہے۔ ان سب کے کسی نہ کسی گھر کے فرد، دوست، پڑوسی کو گولی سے مارا جا چکا تھا۔ سب بغیر کسی استثنی کے۔ اور یہ ایک ایسی چیز تھی جس سے ان کو کسی نہ کسی طریقے سے نمٹنا پڑتا تھا۔

اسلئے جب ہم نے اس سال کے اختتام پر ہولوکاسٹ کا مطالعہ کیا، تو میں نے ہولوکاسٹ سے بچنے والے کئی لوگوں کو بلایا تاکہ ان کے ساتھ بات کریں۔ اور انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ اپنے پورے دلی جذبے سے جواب دیا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ انہوں نے حیران کن حد تک اپنے آپ کو ان کی طرح پایا۔ اور ہر دفعہ کلاس میں کوئی نہ کوئی کہتا کہ "اگر آپ سے یہ ہو سکا، تو میں بھی کر سکتا ہوں"۔ کسی نہ کسی طریقے سے یہ ان کا ان لوگوں کے حوالے سے ردعمل تھا جو یہاں پرآ کر اپنی کہانی سناتے ہوئے کہتے تھے" جب میں تمہاری عمر کا تھا تو میں کسی جنگل میں نازیوں سے بھاگ رہا تھا "یا "تمہاری عمر میں میں حراستی کیمپ میں تھا۔" تم جانتے ہو کہ وہ اس طرح بچوں سے کہتے تھے۔ اور میرے خیال میں سب بچے ان موضوعات سے متاثر ہوئے لیکن خاص طور پر ان بچوں پر،جن کی زندگی بہت مشکلات سے گزری تھی، وہ ان لوگوں کو اپنا رول ماڈل سمجھنے لگے اور ان کی بہت حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔

اور میں نے ان کے لئے ہولوکاسٹ میوزیم کے تعلیمی دورے کا انتظام کیا جو کہ اس سال کا ایک بڑا اہم واقعہ تھا۔ مگر میں نے اُن کے ساتھ جس چیز پر فوکس کیا وہ شناخت تھی۔ اور آپ کی شناخت کے وہ کونسے پہلو ہیں جنہيں آپ کھو نہیں سکتے،اور شناخت کے وہ کونسے حصے ہیں جو آپ سے کوئی چھین سکتا ہے۔ اور نقصان کے بعد جو بچا ہے ،اس کے ساتھ کیا کیا جائے؟ کیونکہ ان بچوں کا بہت نقصان ہوا ہے، جیسے میں نے کہا، گولی مار کر ہلاک ہونا، اور وہ لوگ جو منشیات کے عادی ہو گئے ہوں۔ وہ اپنی زندگی میں بہت لوگوں کو کھوتے ہیں، اور اپنی شناخت کے کئی پہلوؤں کو کھوتے ہیں۔ تو ہم نے، جیسے آپ جانتے ہیں ،اس بارے میں بات کی آپ کی اہم شناخت کیا ہے؟ وہ کیا ہے جو لوگ آپ سے لے نہیں سکتے؟ ہم نے ہولوکاسٹ میں شائقین کے رویے کے بارے میں کافی دیر تک بات کی، کیونکہ یہ ان کی زندگی کا ایک بڑا مسئلہ ہے، "چغلی نہ کھانے" کا مسئلہ۔ تو ہم نے ہولوکاسٹ کے بارے میں بات کی، اور اگر کسی نے کچھ نہ کہا ہوتا تو کیا ہوا ہوتا؟ اور اگر یہ نہ ہوا ہوتا؟ اگر وہ نہ ہوتا؟ اس طرح انہوں نے واقعی ہولوکاسٹ کو کافی حد تک اپنی زندگی کی طرح پایا۔ اس طرح وہ یہ جان سکے کہ اس دور میں امریکہ میں افریقی امریکی بچوں کی حیثیت سے ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ہولوکاسٹ تو نہیں ہے، لیکن اس کے کچھ عناصر ان کی زندگی سے ملتے ہیں۔

ابھی میرے پاس ایک بالکل مختلف قسم کا کام ہے۔ ابھی میں ایک چھوٹے گاؤں میں ربی کی حیثیت سے کام کرتی ہوں، ایسی کاؤنٹی میں جس میں بہت کم یہودی موجود ہیں۔ یہ بالٹیمور کے شمال میں واقع ہے، جو میرے گھر سے 40 منٹ کے فاصلے پر ہے۔ یہ بالٹی مور شہر کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف ماحول ہے۔ لیکن پچھلے سال مارٹن لوتھر کنگ کے دن کے موقع پر میں نے فیصلہ کیا کہ ہماری جماعت کو کسی افریقی امریکی نژاد جماعت کے ساتھ مل کر اس دن کو منانا چاہئیے۔ اس لئے میں نے پیلے صفحات میں تلاش شروع کی۔ اور میں نے پوچھنا شروع کیا کہ "آپ کسی کو جانتے ہیں؟"اور پھر کسی نے مجھے اس پینٹی کوسٹل جماعت کے بارے میں بتایا۔ اور اس طرح مارٹن لوتھر کنگ کے دن ہم نے اس جماعت کے ساتھ یہ دن منایا۔ اور میں نے کچھ وقت چرچ میں اور لوگوں سے ملنے میں گزارا۔ ہم اس سال پھر ایسا کریں گے۔ اور میں سینٹ فرانسس میں اپنے تجربے سے پہلے کبھی بھی ایسا نہ کرتی۔ اس لئے مجھے لگتا ہے کہ یہ میرے ساتھ کئی مختلف طریقوں میں رہے گا، کہ ہم جہاں کہیں بھی ہوں، ہمیں یہودیوں کی حیثیت سے اپنے افریقی امریکی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ رابطہ قائم رکھنا چاہئیے۔

الیسا فشمین:
سام دشمی کے خلاف آوازیں یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میموریل میزیم کی ایک پاڈ کاسٹ سیریز ہے۔ ہماری آج کی دنیا میں مسلسل جاری سام دشمنی کے بارے میں ایک نیا نقطہ نظر سننے کیلئے ہر ماہ یہ سیریز سماعت فرمائیے۔
ہم چاہیں گے کہ آپ اس سیریز کے بارے میں اپنی رائے ہم تک ضرور پہنچائیں۔ براہ مہربانی ہماری ویب سائیٹ
www.ushmm.org دیکھئیے اور سام دشمنی کے خلاف آوازیں کے سروے پر کلک کیجئیے۔ آپ ہماری ویب سائیٹ پر وائسز آن جینوسائیڈ پری وینشن بھی سن سکتے ہیں جو موجودہ نسل کُشی کے بارے میں ایک پاڈ کاسٹ سیریز ہے۔

 


 

Available interviews:

Stephen Mills
Hasan Sarbakhshian
Kathleen Blee
Rita Jahanforuz
Edward T. Linenthal
Colbert I. King
Jamel Bettaieb
Jeremy Waldron
Mehnaz Afridi
Fariborz Mokhtari
Maya Benton
Vanessa Hidary
Dr. Michael A. Grodin
David Draiman
Vidal Sassoon
Michael Kahn
David Albahari
Sir Ben Kingsley
Mike Godwin
Stephen H. Norwood
Betty Lauer
Hannah Rosenthal
Edward Koch
Sarah Jones
Frank Meeink
Danielle Rossen
Rex Bloomstein
Renee Hobbs
Imam Mohamed Magid
Robert A. Corrigan
Garth Crooks
Kevin Gover
Diego Portillo Mazal
David Reynolds
Louise Gruner Gans
Ray Allen
Ralph Fiennes
Judy Gold
Charles H. Ramsey
Rabbi Gila Ruskin
Mazal Aklum
danah boyd
Xu Xin
Navila Rashid
John Mann
Andrei Codrescu
Brigitte Zypries
Tracy Strong, Jr.
Rebecca Dupas
Scott Simon
Sadia Shepard
Gregory S. Gordon
Samia Essabaa
David Pilgrim
Sayana Ser
Christopher Leighton
Daniel Craig
Helen Jonas
Col. Edward B. Westermann
Alexander Verkhovsky
Nechama Tec
Harald Edinger
Beverly E. Mitchell
Martin Goldsmith
Tad Stahnke
Antony Polonsky
Johanna Neumann
Albie Sachs
Rabbi Capers Funnye, Jr.
Bruce Pearl
Jeffrey Goldberg
Ian Buruma
Miriam Greenspan
Matthias Küntzel
Laurel Leff
Hillel Fradkin
Irwin Cotler
Kathrin Meyer
Ilan Stavans
Susan Warsinger
Margaret Lambert
Alexandra Zapruder
Michael Chabon
Alain Finkielkraut
Dan Bar-On
James Carroll
Ruth Gruber
Reza Aslan
Alan Dershowitz
Michael Posner
Susannah Heschel
Father Patrick Desbois
Rabbi Marc Schneier
Shawn Green
Judea Pearl
Daniel Libeskind
Faiza Abdul-Wahab
Errol Morris
Charles Small
Cornel West
Karen Armstrong
Mark Potok
Ladan Boroumand
Elie Wiesel
Eboo Patel
Jean Bethke Elshtain
Madeleine K. Albright
Bassam Tibi
Deborah Lipstadt
Sara Bloomfield
Lawrence Summers
Christopher Caldwell
Father John Pawlikowski
Ayaan Hirsi Ali
Christopher Browning
Gerda Weissmann Klein
Robert Satloff
Justice Ruth Bader Ginsburg