Voices on Antisemitism — A Podcast Series
September 1, 2011
Mike Godwin
author and attorney
An early adopter of computer culture, Mike Godwin noticed in online discussions an abundance of glib comparisons to Hitler and the Nazis. In response, he coined Godwin's Law, a modern adage intended to promote more thoughtful dialogue.
Transcript also available in:
English
إطلع على الترجمة العربية للنسخة المسجلة
Transcript:
یکم ستمبر 2011
مائيک گوڈون
مصنف اور وکیل
کمپیوٹر کی ثقافت کو جلد اپنا لینے والے مائيک گوڈون نے آن لائن تبصروں میں ہٹلر اور نازیوں کے درمیان موازنہ کرنے کے رجحان کا مشاہدہ کیا بے۔ اس کے رد عمل میں اُنہوں نے گوڈون کے قانون کی اصطلاح وضح کی جس کا مقصد سنجیدہ مکالمے کو فروغ دینا تھا۔
تحریر:
مائيک گوڈون:
مجھے لگا کہ نازی یا ہٹلر یا ہولوکاسٹ کے ساتھ بے معنی موازنے کرنے سے تمام مغربی تہذیب بلکہ شاید عمومی طور پر تمام ہی تہذیبوں کے لئے روحانی طور پر تکلیف دہ دور کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔
ایلیسا فشمین:
مائیک گوڈون ایک مصنف اور وکیل ہیں جنہوں نے الیکٹرانک فرنٹئر فاؤنڈیشن اور وکی میڈیا فاؤنڈیشن کے لئے عمومی مشیر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دی ہيں۔ایک ایسے شخص کی حیثیت سے جس نے کمپیوٹر کی دنیا کو شروع ہی میں اپنا لیا، مائيک گوڈون نے آن لائن تبصروں میں لوگوں کو ہٹلر اور نازیوں کےدرمیان مؤثر طریقے سے موازنہ کرتے دیکھا۔ جواب میں اُنہوں نے گوڈون کے قانون کی اصطلاح اپنائی جس کا مقصد سنجیدہ مکالمے کو فروغ دینا تھا۔
سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ھولوکاسٹ میوزیم کی طرف سے جاری ہونے والی ایک پوڈ کاسٹ سیریز الیزبیتھ اور جو اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیشن کی بھرپور حمایت کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ میں ایلیسا فشمین ہوں۔ ہر مہینے ہم ان مختلف طریقوں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک مہمان کو دعوت دیتے ہیں جن کے ذریعے سام دشمنی اورنفرت ہماری دنیا کو متاثر کرتے ہيں۔ یہ ہیں اوکلینڈ، کیلی فورنیا میں اپنے گھر سے مائیک گوڈون۔
مائيک گوڈون:
گوڈون کا قانون – بلکہ اسے قانون نہيں کہنا چاہئیے، وہ صرف ایک تیزی سے پھیلنے والا خیال ہی ہے – جسے میں نے 1990 میں تخلیق کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور یہ قانون کچھ یوں ہے: "جیسے جیسے آن لائن تبصرہ جاری رہتا ہے، ہٹلر یا نازیوں کے ذکر یا موازنے کا امکان ایک ہوجاتا ہے۔" جس سے میری مراد تھی کہ جوشیلے بحث و مباحثے عام طور پر ایک ہی طریقے سے آگے بڑھتے ہيں، اور اکر آپ کسی کو گالی دینا چاہتے ہيں، آپ انہيں ہٹلر سے یا نازیوں سے یا ہولوکاسٹ سے مشابہت دیتے ہيں۔
جب میں نے 1980 کی دہائی میں آن لائن ثقافت کی شروعات میں ایسا ہوتے ہوئے دیکھا، مجھے بہت پریشانی ہوتی تھی۔ لیکن میں کوئی سنجیدہ جملہ جیسے کہ "ایسا موازنہ نہيں کرنا چاہئیے" نہيں کہنا چاہتا تھا کیونکہ اس سے کوئی فرق نہيں پڑنے والا تھا۔ میں لوگوں کو سوچ میں مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اور میں نے سوچنا شروع کردیا کہ میں کیا کرسکتا ہوں؟ میڈیا میں رہتے ہوئے ایک فرد واحد کی حیثیت سے ایک بہت بڑی مشکل پیش آتی ہے: ایک فرد واحد کی حیثیت سے آپ کی وجہ سے کس طرح فرق پڑسکتا ہے؟ اور میں نے سوچا کہ صرف خود محنت کرنے کے بجائے، کیوں نہ دوسروں سے محنت کروائی جائے۔ میں نے مختلف آن لائن فورم میں گوڈون کے قانون کا تصور پھیلانا شروع کیا اور کچھ عرصے بعد میں نے لوگوں کو اس کا ذکر کرتے دیکھا۔ اصل میں یہ آن لائن ثقافت کے لئے بنایا گیا تھا، لیکن اس کا اطلاق واضع طور پر روایتی میڈیا پر بھی ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں بڑا ہورہا تھا، تو کچھ لوگوں کا موازنہ اٹیلا دی ہن سے کیا جاتا تھا۔ یہ تو بس باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ آج کوئی شخص زندہ نہيں ہے جسے اٹیلا دی ہن یاد ہو، اور بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جنہيں تاریخ سے اتنا لگاؤ ہو کہ انہيں معلوم ہو کہ اٹیلا دی ہن کون تھا اور یہ موازنہ معنی خیز کیوں ہے یا نہيں ہے۔ یہ تاریخ کا بالکل مختلف دور ہے۔ اور آج کل کے جدید دور میں، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کافی حد تک تہذیب یافتہ ہوگئے ہيں۔ لیکن آج کل کے لوگوں کو ایسا دور بھی یاد ہے جب لوگوں نے اس سے بدتر کام کئے ہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ہولوکاسٹ کی استثنائی کیفیت کو اجاگر کروں، لیکن میں لوگوں کو ان کے موازنوں کی سنجیدگی سے آگاہ کروانا چاہتا تھا۔
میرے خیال میں جب آپ کوئی ایسا خیال تخلیق کرتے ہيں جس میں وزن ہو، وہ آپ کے کنٹرول سے باہر ہوجاتا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ گوڈون کے قانون کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ لیکن کیا اس سے کوئی فرق پڑا؟ ہاں، مجھے لگتا ہے کہ اس سے فرق پڑا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ، مثال کے طور پر اس بات پر اکثر بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا صدام حسین کو یا جارج بش کو ہٹلر کے ساتھ تشبیہ دینا درست ہے یا نہیں۔ میں نے احتجاجی مظاہروں کے دوران اوباما کو سوپ اسٹرینر والی مونچوں کے ساتھ دیکھا ہے، جو میرے خیال میں ایسے پلے کارڈ اٹھانے والوں کی طرف سے تاریخ کے بارے میں نامکمل معلومات رکھنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کیا اس سے فرق پڑا ہے؟ اس سے موازنے تو ختم نہيں ہوئے۔ لیکن میرے خیال میں جب موازنے کئے جاتے ہيں تو لوگ انہيں پہچانتے ہيں اور ان کے ساتھ مناسب سلوک بھی کرتے ہيں۔
آپ کو معلوم ہے، لوگ نازیوں کے ساتھ موازنہ کرنے کے اقدام کا دفاع کرتے ہيں۔ وہ کہیں گے کہ وہ جذبات کی شدت کا اظہار کرنے کی کوشش کررہے ہيں یا پھر آپ کے موقف کے بارے میں جذباتی رد عمل کا مظاہرہ کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ میرے خیال میں زبان بہت لچک دار ہوتی ہے۔ میرے خیال سے آپ تاریخ کو کارٹون بنائے بغیر یا اسے محض لفاظی کی شکل دئے بغیر ایسا کرسکتے ہيں۔
انسان تاریخ کی ابتدا ہی سے ایک دوسرے کے ساتھ غیرانسانی سلوک کرتا آرہا ہے، لیکن لوگوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کرنے اور انہيں ختم کرنے کے لئے یا ختم کرنے کی کوشش کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال بنیادی طور پر مختلف تھا اور ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی نسل کی حیثیت سے جو خود پسندی کا شکار ہے، ہم اپنی قسمت کا خود تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ ہم اپنے آپ کو بہت نقصان پہنچانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہيں اور ہمیں اس بات کا بھی شعور ہونا چاہئیے کہ ہم نے عظیم ہونے کا امکان بھی پیدا کیا ہے– نہ صرف جسمانی نقصان میں عظیم ہونا، بلکہ خود کو روحانی اور اخلاقی طور پر بھی نقصان پہنچانے میں حد سے بڑھ جانا۔
ایلیسا فشمین:
سام دشمنی کے خلاف آوازیں یونائیٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کے طرف سے جاری ہونے والی پوڈکاسٹ سیریز ہے۔ آج کل جاری سام دشمنی کے ایک نئے نظریے کے بارے میں جاننے کے لئے ہر مہینے ہمارے ساتھ رہئیے۔ ہم اس سیریز کے متعلق آپ کے فیڈ بیک کے منتظر رہيں گے۔ ہماری ویب سائٹ www.ushmm.org پر تشریف لائيں۔